دنیا سے شکایت ہے، نہ تجھ ہی سے خفا ہوں
قسمت کی عنایت ہے جو تنہا میں کھڑا ہوں

پلکوں پہ جگہ پائی، نہ دامن میں بسا ہوں
اک اشکِ ندامت تھا، سرِ خاک گرا ہوں

دل پر تو تری یاد کے بادل کا ہے سایہ
سر پر ہے کڑی دھوپ جسے جھیل رہا ہوں

مشروط رہی تیری نگاہوں سے مری زیست
اک پل میں جیا ہوں تو، میں اک پل میں مرا ہوں

Ø+الات Ú©ÛŒ دلدل میں کہاں اتنا مجھے ہوش
Ù…Ø+فل ہے تری یا کہ سرِ راہ پڑا ہوں

لمØ+Û‚ مسرت Ú©ÛŒ طلب میری خطا تھی
اب غم کے بیابان میں زنجیر بپا ہوں

صیاد کر اغماض، ہوا Ù…Ø+وِ فغاں جو
ناواقفِ آدابِ قفس تھا، کہ نیا ہوں

اک عمر سے ہے اپنی Ø+قیقت Ú©ÛŒ مجھے کھوج
اب کون بتائے میں بھلا کون ہوں، کیا ہوں

منزل تو نہیں زین، یہ دنیا ہے سرائے
میں ایک مسافر ہوں، گھڑی بھر کو رکا ہوں